Pages

Thursday, September 01, 2011

"آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن ہی کامیاب ہوگی"


صحافی عام طور پر افطارڈنر دینے سے اجتناب کرتے ہیں ، ان کے اندر یہ صفت کیسے پیدا ہوگئی ہے ، یہ ایک الگ بحث ہے ، یہاں تو ہم ایک اور موضوع پر بحث کا آغاز کرنا چاہتے ہیں، گذشتہ دنوں جب ماہ رمضان کا آخری عشرہ بھی ختم ہونے والا تھا تو خوشاب سے ایک چھوٹے سے صحافی نے اس روایت کو توڑتے ہوئے جس کا زکر اول لائن میں کیا گیا ہے ، ایک افطار ڈنر کا انعقاد کر ڈالا ، اس نے اس کو غیر منتازعہ بنانے کے لئے خوشاب میں صحافت کے حوالے سے معروف تمام ڈھڑوں سے نہایت احتیاط سے مشاورت کی اور بالآخر وہ وقت آن پہنچا جب خوشاب کے ایک مقامی ہوٹل میں افطار ڈنر کا انعقاد ہوناتھا ۔ موصوف صحافی نے اپنے استطاعت سے بڑھ کر اہتمام کر رکھا تھا، اور یہی عالم مہمانوں کو بلانے کے حوالے سے بھی تھا۔ مراد صحافت میں اپنے قد کاٹھ سے بڑھ کر سیاسی اور سماجی شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا، بعض لوگوں نے تو دعوت میں شرکت کی حامی ہی اس بنا پر بھری تھی کہ فلاں سیاسی دھڑے کو دعوت نہ دی جائے ، جب ان کی یہ فرمائش پوری کردی گئی تو صاحب خود بھی تشریف لانے سے قاصر رہے ، بہرحال یہ ایک معمول ہے سب لوگ سب لوگوں کی افطار پارٹیوں میں نہیں جاتے ۔افطار پارٹی کے مہمان خصوصی ممبر قومی اسمبلی تھے ، جنھوں نے خاموشی کو عبادت سمجھ کر اپنائے رکھا، مگر قوم اس وقت حیران رہ گئی جب اگلے روز افطار پارٹی کی خبرمیں ان کے کڑاکے دار بیانات سامنے آئے ، ایک اخبار نے ان سے جو بیان منسوب کیا وہ مسلم لیگ ن میں متوقع یا جاری رخنہ اندازی کے حوالے سے تھا جبکہ دیگر تمام مقامی و غیر مقامی اخبارات میں ایم این اے صاحب کی طرف سے آئندہ الیکشن میں کامیاب ہونے کی نوید سنائی گئی تھی۔ ہیڈ لائن کچھ اس طرح تھیـ ـ "آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن ہی کامیاب ہوگی" پہلی نظر اگرچہ معاف ہے مگر یہ معافی غیر محرم کی کسی عورت پر پڑنے کے حوالے سے ہے مگر یہاں ذکر ہو رہا ایم این اے صاحب سے منسوب اس بیان کی خبری شہ سرخی کا جو خوشاب کے کنہ مشق صحافیوں نے تخلیق کی، ساری عمر گذر گئی قلم کی نوک گھس گئی مگر کوئی جاندار بیان بنانے کی ہمت نہ بن پڑی ، بیان بنایا بھی تو کیسا مشکوک کہ آئند حکومت مسلم لیگ ن کی ہوگی ، کوئی پوچھے کہ کیوں جناب کوئی زبردستی ہے ؟ اگر عوام اس کو ووٹ بھی نہ دیں ۔ پھر بھی  ؟کوئی پوچھے کہ مسلم لیگ ن نے خوشاب میں کون سا ایسا تیر مارا ہے کہ عوام پر یہ حکم نامہ جاری کیا رہا ہے ، بیان اگر منسوب کرنا ہی تھا تو یہ بھی تو کیا جاسکتا ہے "عوام ہماری شرافت کے بدلے منتخب کریںگے "مگر کسی کو جناب ایم این اے صاحب کی شرافت سے کیا لینا دینا ، مفاد تو ا س میں ہے کہ بس کسی بھی طرح حکومت میں رہیں  
اک  بزرگ  صحافی  مجھے بارہا  یہ  درس  دیتا  ہے    
صحافت کرنی ہے تومفاد پرستی  کے سب گر  سیکھ  لو
صحافت پر تنقید ، نہیں یہ نہیں ہوسکتا ، یہ فقرہ اتنے ہی زور سے بولنا چاہیے جتنا کہ ایک پنجابی ولن کسی پنجابی فلم میں زور سے کہتا 
ہے  "یہ شادی نہیں ہوسکتی ـ"  مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں جہاں ولن شور مچاتا ہے کہ یہ شادی نہیں ہوسکتی وہاں وہاں وہی شادی ہوکر رہتی ہے ، قلم ہے نا۔ اور ابھی ہے نیا نیا ، پھسل جاتا ہے ، کہاں سے کہاں تک پنچ گیا۔ چلیں چھوڑیں اس بحث کو  !  بات ہورہی تھی کہ جناب ایم این اے صاحب سے ہمارے پیلے صحافیوں نے جو جملہ منسوب کیا ، کیا وہ انھوں بولا بھی تھا  ؟  بولنا تو بہت دور کی بات  کیا انھوں نے اس سارے دن میں یہ جملہ سوچا بھی تھا  ؟  سوچنا تو ایک کام ہے جو خود کیا جاتا ہے چلیں ایسا کرتے ہیں کہ پوچھتے ہیں کہ جناب ایم این اے نے اس دن یہ جملہ سنا بھی تھا ؟ ہاں یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ اس روز اس جملے کی بازگشت کسی نیوز چینل ، کسی بڑے روزنامے میں کسی بڑ ے سیاسی لیڈر کے بیان کے طورپر شائع ہوا ہو، اور ہمار ے خشک القلم پیلے صحافی بھائی اپنے فہم و فراست کی خشک سرزمین کے عدم سیرابی کی وجہ سے اسی بیان کو جناب ایم این اے صاحب سے منسوب کرکے بیٹھ گئے ہوں ،  
ہنگ لاگے نہ پھٹکڑی رنگ بھی آوے ڈھیر  
کتنا ظلم ہے ، ٹیبل نیوز بنا نا ۔ کسی کا جملہ کسی کے منہ میں ڈال دینا ، خود اس کو جس کے نام سے بیان منسوب کیا جارہا ہوتا ہے خود لوگ فون کرکے بتاتے ہیںکہ جناب آج آپ کا یہ بیان شائع ہوا ہے اور اس کے یہ سیاق و سباق ہیں کوئی پوچھے تو اس طرح وضاحت فرمائیے گا۔  اسی موقع پر کہنا چاہیے  لا حول ولا قوۃ  
بات ذرا آگے بڑھاتے ہیں اور اسی جملے کے منطقی انجام کو زیر بحث لاتے ہیں ، جملہ تھا  "آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ ن ہیں کامیاب ہوگی" جی ہاں آپ نے بھی شاید میر ی طرح غور نہیںکیا ، کہنے والا اپنی اس خوبی کا ادراک کروانے کے درپے ہے جس کو کہتے ہیں قبل از وقت معلوم ہونا ، جسے کو علم غیب یا پھر علم نجوم بھی کہا جاسکتا ہے ، ایم این اے کے ساتھ اس سے بھونڈا مذاق خوشاب کے پیلے صحافی اور کیا فرما سکتے ہیں کہ ان کو نجومی بنادیا ۔ جی ہا ں ہم سب جانتے ہیں کہ ہمیں اپنے اگلے سنانس کا علم نہیں ، اور اگر کوئی دعوی کرے تین سال کے بعد کے حالات کا تو اسے نجومی ہیں کہا جاسکتا ہے ،اب اگر ایسے نااہل قلم کاروں کو پیلے صحافی نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے جو اپنے کم علم ، کم عقل ،  ضعیف العمر اوسر ضعیف العقیدہ ہونے میں اس مقام پر فائز ہوچکے ہیں کہ ان کی زبان اور قلم کانپتی ہے اور اپنی قلم کی لغزش سے یہ اپنے دوستوں کی گردنیں مارنے پر تلے ہوئے ہیں ، خدا ان سے ہر شریف شہری اور ہر شریف والے شہری کو محفوظ رکھے  آمین  

No comments:

Post a Comment

Please comment here for us.